خلافت و ملوکیت



 یہ چیپٹر ہماری طرف سے کلوز کیا گیا تھا لیکن چونکہ فرقہ پرست وہابی حضرات نے نورپوری جیسے متعصب اور جھوٹے شخص کو آگے کیا ہوا ہے اور خود پیچھے تالیاں بجا رہے ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی تعصب اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جھوٹی دفاع کا نعرہ بے نقاب کیا جائے،


مولانا مودودیؒ نے خلافت و ملوکیت لکھ کر امت پر احسان کیا ہے اہل سنت والجماعت کے چوٹی کے علماء جن میں ابن کثیرؒ، ابن سعدؒ ،ابن اثیر ابن عبد البرؒ و دیگر اہل سنت والجماعت کے علماء کی کتابوں سے حوالے نقل کئے ہیں


مولانا مودودیؒ نے انتہائی معتدل اور آسان فہم انداز میں خلافت و ملوکیت لکھا ہے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ خلافت جیسی بہترین نظام حکومت آخر کسی وجہ سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی؟؟

 ظاہر ہے ان کی کچھ وجوہات ہوگی اپ نے ان وجوہات کو محدثین اور مؤرخین کے حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے آپ نے اسلام کا صحیح معنوں میں دفاع کیا کسی شخصیت اور ذات کا دفاع نہیں کیا۔ 

خلافت و ملوکیت نہ تو مشاجرت صحابہؒ کے موضوع پر لکھی گئی ہے نہ کسی خاص شخصیت کیخلاف بلکہ اس نظام کے حق میں لکھی گئی ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے نے وراثت میں چھوڑا تھا

مولانا مودودیؒ چونکہ کسی خاص مسلک یا کسی خاص فرقے کا دفاع کئے بغیر اسلام کی دفاع کرتا تھا اسی وجہ سے مسلک پرست ناصبیوں نے مولانا مودودیؒ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کا الزام لگایا حالانکہ اس کتاب میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔


معترضین  سے یہ سوال ہے کہ جن باتوں پر آپ مولانا مودودیؒ کو گمراہ اور گستاخ ڈیکلیر کرتے ہیں کیا ان باتوں پر ابن کثیرؒ، ابن اثیرؒ ، ابن سعدؒ ابن عبدلالبرؒ و دیگر علمائے کرام کو بھی گستاخ ڈیکلیر کرینگے؟؟ جنہوں نے مولانا مودودی سے بھی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں؟


ان مسلک پرستوں کا الزام صرف اس بات پر ہے کہ مولانا نے حضرت عثمانؓ اور حضرت معاویہؓ کے بعض کاموں پر تنقید کی ہے حالانکہ مولانا مودودیؒ نے حضرت علیؓ کے بارے میں بھی لکھا ہے قاتلین عثمان کو علیؓ نے عہدے دئے تھے۔


 لیکن صحابہ کی دفاع کا رٹ لگانے والوں کو صرف معاویہؒ ہی نظر آتے ہیں ان کی دفاع کو پورے صحابہ کرام کی دفاع کہتے ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان ناصبیوں کا صحابہ کرام کی دفاع سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ چند شخصیات کی دفاع کو انہوں نے صحابہ کرام کی دفاع کا نام دیا ہے۔

خلافت و ملوکیت جیسے اہم مسلے پر مولانا مودودیؒ کے علاؤہ دیگر علمائے کرام اور اہل علم  نے بھی قلم اٹھایا ہے جب اپ ان  علمائے کرام کی عبارات کو پڑھینگے تو مولانا مودودیؒ کی عبارات بہت معتدل اور متوازن معلوم ہوجاینگے۔

مگر افسوس کہ تکفیری فتوے بانٹنے والوں کو صرف مولانا مودودیؒ نظر آتے ہیں دوسرے نہیں اگر یہ لوگ واقعی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دفاع کررہے ہوتے تو مولانا مودودیؒ کے علاؤہ دوسرے علمائے کرام پر بھی اسی طرح کے فتوے لگاتے۔۔۔!!

ابھی میں ایک مثال بیان کرتا ہوں مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خانؒ جو کہ اہل حدیث کے مشہور اور بڑے عالم دین ہے انہوں نے علیؓ اور معاویہؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں لکھا ہے


( معاویہؓ نے قصاصِ عثمانؓ پر اھل شام کو دھوکہ دیا )

 

"جہاں تک بات ھے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ حق ان کے ساتھ تھا

(یعنی علیؓ کے ساتھ) تمام مواقع پر جہاں تک بات ھے طلحةؓ والزبيرؓ اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علی کی، اور پھر اس کو توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا

اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ھے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔

اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ہے، تو ان کا باغی ہونا ظاہر تھا اور اس پر دلیل فرمانِ مصطفیٰﷺ :" اے عمارؓ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا"  کافی ہے۔

 اور معاویہؓ علیؓ سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا۔"


الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية

المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي (المتوفى: 1307هـ)

الناشر: دار ابن حزم ، ص /  782


یہی باتیں مولانا مودودیؓ نے بیان کی ہے ان مسلک پرستوں اور تکفیری سوچ رکھنے والے نام نہاد صحابہ کرام کی دفاع کا رٹ لگانے والوں کے نزدیک مولانا مودودیؒ گمراہ اور گستاخ ہے جبکہ نواب صدیق حسن خانؒ اور انکی طرح دوسرے علمائے کرام بزرگ اور اکابرین ہے۔


کیا یہ دوغلا پن اور کھلا تضاد نہیں؟؟


مولانا مودودیؒ کی خلافت و ملوکیت کے اس باب پر زیادہ تنقید ہوتی ہے کے آپ نے معاویہؓ کے بعض افعال کو بدعت قرار دیا ہے حالانکہ یہ صرف مولانا مودودیؒ نے نہیں لکھی بلکہ بہت سے علماء نے یہ بات اپنی کتابوں میں لکھی ہے مثال کے طور پر مولانا عبد الحئیؒ جو کہ اکابرین دیوبند کے اساتذہ میں شمار ہوتا ہے اس نے اپنی مشہور کتاب "التعلیق الممجد میں امام محمدؒ کےقول کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہے

" ابن ابی شیبہ حماد بن خالد سے اور وہ ابن ابی ذئب سے اور وہ امام زہری سے راوی ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بدعت ہے اور پہلا ایسا فیصلہ امیر معاویہؓ نے کیا۔ اور مصنف عبد الرزاق میں ہے ، ان سے معمر نے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ امام زہری نے کہا کہ یہ فیصلہ لوگوں نے نیا اور نرالا نکال لیا ہے۔ اثبات دعویٰ کیلئے دو گواہوں کا ہونا لازم ہے۔"

( المؤطا للامام محمد مع التعلیق الممجد ص 361 )


بعض علماء جنہوں نے قریب کے دور میں تاریخی موضوعات پر لکھا ہے انہوں نے بھی حضرت معاویہؓ کے بعض افعال پر بدعت کا اطلاق کیا ہے۔ اور ان پر سخت تنقید کی ہے مثال کے طور پر مولانا معین الدین ندویؒ سیر الصحابہ جلد ششم ص 93 پر امیر معاویہؓ کے متعلق لکھتے ہیں:


" جناب امیر معاویہؓ (حضرت علیؓ) کے مقابلے میں ان کا صف آرا ہونا ،اور اس میں کامیابی کیلئے ہر طرح کے جائز و ناجائز وسائل استعمال کرنا ، حضرت حسنؓ سے لڑنا ، اسلامی خلافت کو موروثی حکومت میں بدل دینا وغیرہ ، ان میں سے ہر ایک واقعہ ان کی ایسی  کھلی غلطی ہے جسے کوئی حق پسند مستحسن قرار نہیں دے سکتا۔ خصوصاً یزید کی ولی عہدی سے اسلامی خلافت کی روح ختم اور اسلام میں موروثی بادشاہت کی رسم قائم ہوگئی۔ ان واقعات نے عوام کو چھوڑ کر حق پسند خواص کو بھی امیر معاویہؓ سے بدظن کردیا ۔" امیر معاویہؓ کی بدعات میں اسلامی خلافت کو شخصی و موروثی حکومت بنادینے کی بدعت تو بےشک نہایت مذموم بدعت تھی جس نے اسلامی خلافت کی روح مردہ کردی۔


(تحریر کی طوالت کے پیش نظر مزید علماء کے حوالے نقل نہیں کرتا ورنہ ان پر بیشمار دلائل دے سکتا ہوں)


اب ان معترضین سے سوال ہے چاہے وہ زبیر صاحب ہو نور پوری صاحب ہو، سپاہ یزیدی ہو یا کوئی  اور کیا یہ فتوہ ان علماء کرام پر بھی لگے گا جنہوں نے اپنے کتابوں میں مولانا مودودیؒ سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں یا صرف مولانا مودودیؒ ہی آپکے نزدیک گستاخ صحابہ ہے؟؟


ہر کوئی خود کو مشہور کرنے کیلئے مولانا مودودیؒ پر اعتراضات کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے حلقہ اثر میں مشہور ہوجائے اگر کوئی معقول اعتراضات کرے ہم ویلکم کرینگے کیونکہ مولانا مودودیؒ کو ہم معصوم عن الخطا نہیں سمجھتے لیکن اگر کوئی دجل و فریب سے کام لیکر صرف مولانا مودودیؒ کے پیچھے لگا رہے اور دوسرے علمائے کرام کو انہی باتوں پر اپنے اکابرین ڈیکلیر کرے اور مولانا مودودیؒ کو گستاخ تو یقیناً یہ زیادتی ہوگی۔ اور ان لوگوں کا پیچھا ہم ان شاءاللہ دلائل سے کرینگے۔


افتخار احمد

No comments:

Post a Comment